Joseph Colony incredible incedent

 


آج سانحہ جوزف کالونی کو دس برس بیت گئے۔۔!😢😭😢


 دس سال قبل توہینِ رسالت کے الزام میں مکمل مسیحی بستی کو راکھ بنا دیا گیا تھا، لیکن اس سارے واقعہ کے مرکزی کردار ساون مسیح کو باعزت بری کر دیا گیا تھا، کیونکہ الزام ثابت نہ ہو سکا۔





ساون مسیح کیس کا پس منظر مارچ 2013 میںجوزف کالونی لاہور کے رہائشی ساون مسیح کے خلاف توہینِ مذہب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا تھا۔ اس مقدمے کا آغاز آٹھ مارچ 2013 کو پیش آنے والے ایک واقعے کے باعث ہوا تھا جس میں بچپن کے دو دوستوں ساون مسیح اور شاہد عمران کے درمیان سنوکر کھیلتے ہوئے جھگڑا ہوا اور پھر بڑھتے بڑھتے بات ایسی بڑھی کہ ساون پر توہین مذہب کا الزام لگ گیا۔ مقدمے میں شاہد عمران نے ساون مسیح پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کیا تھا۔ پولیس نے شاہد عمران نامی شخص کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا تھا۔ ایف آئی آر درج ہونے کے فوراً بعد ساون مسیح کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔






اس معاملے کی خبر پھیلنے کے بعد آٹھ مارچ کی شام کو بادامی باغ کے انڈسٹریل ایریا کے قریب واقع اس رہائشی کالونی پر مشتعل ہجوم نے دھاوا بول دیا تھا۔ یہ حملے دو دن تک جاری رہے تھے۔ اس سانحہ میں مسیحیوں کے 180 سے زیادہ مکان اور دکانیں نذر آتش کی گئی تھیں۔ دہشتگردوں نے متاثرہ علاقے میں واقع 180 مکانات اور ان میں موجود املاک کو آگ لگا کر مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا جبکہ دو گرجا گھروں کو بھی جلایا گیا تھا۔ جوزف کالونی لاہور کے علاقے بادامی باغ سے متصل مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کا بڑا علاقہ ہے۔ حملے کے بعد پولیس نے 180 سے زائد افراد کو توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ تاہم ان تمام افراد کو بعد ازاں ناکافی شواہد کے باعث رہا کر دیا گیا تھا۔




ساون مسیح کیخلاف ایک سال تک ٹرائل کورٹ میں اُن کا کیس چلا اور عدالت نے اُنہیں توہینِ مذہب کے قانون کے تحت سزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ عدالتی فیصلے کے خلاف ساون مسیح نے 2014 میں لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ سانحے کے 35 گھنٹوں بعد پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔ اپیل میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی آر کا تاخیر سے اندارج ہونا پولیس کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔ اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ درج شدہ ایف آئی آر اور مدعی کے بیانات میں واضح تضاد ہے۔ ٹرائل کورٹ نے ناکافی گواہوں اور ثبوتوں کے باوجود اسے سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔ لہٰذا عدالتِ عالیہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔ بالاخر ہوا یہ کہ ایک بار پھر لاہور ہائیکورٹ نے توہین رسالت کیس میں ساون مسیح کی سزائے موت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے رہا کرنیکا حکم دیدیا۔







پاکستان میں کسی مسیحی آبادی پر حملے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا اور ماضی قریب میں گوجرہ اور شانتی نگر میں بھی ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں لیکن آج تک نہ تو ان واقعات سے متعلق حقائق منظرِ عام پر نہ آسکے اور نہ ہی کسی کو ذمےدار ٹھہرا کر سزا دی گئی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Trip to Mabali Island 🏝️

CNS 24/7 Christian News Service ✝️

Who is Jesus?